ashab e rasoolBlog

Hazrat Sasa Bin Najia

حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ در رسول الله ﷺ

Hazrat Sasa Bin Najia Hazrat Sasa Bin Najia

Hazrat Sasa Bin Najia

حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ در رسول الله ﷺ پر کلمہ پڑھنے آئے

مسلمان ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرنے لگے ۔

یا رسول الله ﷺ ایک بات پوچھنی ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا پوچھو۔ ‏کہنے لگے یا رسول الله ﷺ دور جاہلیت میں ہم نے جونیکیاں کی ہے۔ ان کا بھی الله ہمیں اجر عطا کرے گا کیا اُسکا بھی اجر ملے گا۔

تو نبی کریمﷺ نے فرمایا تُو بتا تو نے کیا نیکی کی۔کہنے لگے

یا رسول الله ﷺ میرے دو اونٹ گم ہوگئے۔ میں اپنے تیسرے اونٹ پر بیٹھ کر اپنے دو اونٹوں ‏کو ڈھونڈنے نکلا۔ میں اپنے اونٹوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جنگل کے اُس پار نکل گیا۔ جہاں پرانی آبادی تھی وہاں میں نے اپنے دو اونٹوں کو پا لیا۔ ایک بوڑھا آدمی جانوروں کی نگرانی پر بیٹھا تھا۔ اس کو جا کر میں نے بتایا کہ یہ دو اونٹ میرے ہیں۔ وہ کہنے لگا یہ تو چرتے چرتے یہاں آئے ‏تھے تمہارے ہیں تو لے جاؤ۔ انہی باتوں میں اُس نے پانی بھی منگوا لیا چند کھجوریں بھی آ گئی۔

میں پانی پی رہا تھا کھجوریں بھی کھا رہا تھا۔ کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو بوڑھا پوچھنے لگا

بتاؤ بیٹی آئی کہ بیٹا میں نے پوچھا بیٹی ہوئی تو کیا کرو گے۔ کہنے لگا اگر بیٹا ہوا تو قبیلے کی شان بڑھائے گا۔ اگر بیٹی ہوئی تو ابھی یہاں اُسے زندہ دفن کرا دوں گا۔ اس لیئے کہ میں اپنی گردن اپنے داماد کے سامنے جھکا نہیں سکتا۔

میں بیٹی کی پیدائش پر آنے والی مصیبت برداشت نہیں کر سکتا۔ میں ابھی دفن کرا دوں گا۔

حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓعرض کرنے لگے یا رسول الله ﷺ۔

‏یہ بات سن کے میرا دل نرم ہوگیا۔ میں نے اُسے کہا۔

پھر پتہ کرو بیٹی ہے کہ بیٹا ہے۔ اس نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ بیٹی آئی ہے۔ میں نے کہا کیا واقعی تو دفن کرے گا کہنے لگا ہاں !  تو میں نے کہا دفن نہ کر مجھے دے دے۔ میں لے جاتا ہوں۔

یا رسول اللّٰه ﷺ وہ مجھے کہنے لگا۔ اگر میں بچی تم ‏کو دے دوں تو تم کیا دو گے۔

میں نے کہا تم میرے دو اونٹ رکھ لو بچی دے دو۔ کہنے لگا۔

نہیں۔  دو نہیں یہ جس اونٹ پہ تو بیٹھ کے آیا ہے یہ بھی لے لیں گے۔   حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ عرض کرنے لگے۔ ایک آدمی میرے ساتھ گھر بھیجو یہ مجھے گھر چھوڑ آئے میں یہ اونٹ اُسے واپس دےدیتا ہوں۔

‏یا رسول اللّٰه ﷺ۔

میں نے تین اونٹ دے کرایک بچی لے لی اس بچی کو لاکے میں نے اپنی کنیزکو دیا۔ نوکرانی اُسے دودھ پلاتی۔

یا رسول الله ﷺ وہ بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی وہ میرے سینے سے لگتی۔

حضور ﷺ پھر مجھے نیکی کا چسکا لگ گیا۔ پھر میں ڈھونڈنے لگا کہ کون کون سا قبیلہ بچیاں دفن کرتا ہے۔

یا رسول الله ﷺ

 میں تین اونٹ دے کے بچی لایا کرتا۔

یا رسول الله ﷺ میں نے 360 بچیوں کی جان بچائی ہے۔

میری حویلی میں تین سو ساٹھ بچیاں پلتی ہیں۔

حضور ﷺ مجھے بتائیں۔

میرا مالک مجھے اِس کا اجر دے گا ؟کہتے ہے حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا۔ داڑھی مبارک پر آنسو گرنے لگے۔ مجھے سینے سے لگایا میرا ماتھا چوم کے فرمانے لگے۔

یہ تو تجھے اجر ہی تو ملا ہے۔ رب نے تجھے  دولتِ ایمان عطا کر دی ہے۔ نبی کریم ﷺ فرمانے لگے یہ تیرا دنیا کا اجر ہے۔اور تیرے رسولﷺ کا وعدہ ہے قیامت کے دن رب کریم تمہارے لیے خزانے کھول کے دے گا۔

یہ واقعہ امام طبرانی (وفات: ۳۶۰ ہجری) کی معجم کبیر میں حدیث ۷۴۱۲،

امام حاکم (۴۰۵ ہجری) کی المستدرک میں حدیث ۶۵۶۲،

 ابن اثیر جزری (وفات: ۶۳۰ ہجری) کی اسد الغابہ مذکور رقم ۲۵۰۷ پر موجود ہے.

1) امام بخارى رحمہ اللہ (م 256 ھ) نے اس حدیث کو اپنی کتاب

“التاریخ الکبیر” 4/ 319 ، ترجمۃ صعصعۃ بن ناجیۃ المجاشعی، ط: دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد – الدكن، میں مختصرا نقل فرمایا ہے۔
2) ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (م 287 ھ) نے “الآحاد والمثانی” 2/ 403، رقم الحدیث (1199)، ط: دار الرایۃ-الریاض، میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “یہ کام تو نیکى کا ایک دروازہ اور آپ اس کا اجر ملے گا کونکہ اللہ تعالى نے آپ کو اسلام کى دولت سے نوازا ہے”۔
3) امام بزار رحمہ اللہ (م 292 ھ) نے “مسند البزار” بحوالہ کشف الأستار 1/ 55، رقم الحدیث (72) كتاب الإيمان/ باب فيمن عمل خيرا قبل أن يسلم، میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔
4) امام ابو یعلى رحمہ اللہ (م 307 ھ) نے “مسند ابی یعلى” بحوالہ لسان المیزان 4/ 353 ، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، میں “طفیل بن عمرو التمیمی”کے تذکرے میں نقل فرمایا ہے۔
5) امام حاكم رحمه الله (م 405 ھ) نے “المستدرک على الصحیحین” 3/ 707 رقم الحدیث (6562) کتاب معرفة الصحابة/ ذكر صعصعة بن ناجية المجاشعي رضي الله عنه، ط: دار الكتب العلمية، میں نقل فرمایا ہے، اس کے اندر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھى ہیں: “تمہارے اس نیک عمل کا اجر مکمل ہو گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالى نے تمہیں اسلام کى دولت سے نوازا ہے”۔
حدیث کى اسنادی حیثیت:
1) اس حدیث کو علامہ ہیثمی رحمہ اللہ (م 807 ھ) نے “مجمع الزوائد” 1/ 276 ، رقم الحدیث (338) کتاب الإیمان/ باب فيمن عمل خيرا ثم اسلم، ط: دار الفکر، میں امام طبرنی اور امام بزار رحمہما اللہ کے حوالے سے نقل کر کے فرمایا ہے: اس حدیث کى سند میں “طفیل بن عمرو التمیمی” ہیں، ان کے متعلق امام بخارى رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ان کى حدیث “صحیح” نہیں ہے اور امام عقیلی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ان کى حدیث کى متابعت نہیں کى جاتى ہے، یعنى یہ روایت کرنے میں منفرد ہیں۔
2) تاہم امام حاکم رحمہ اللہ (م 405 ھ) نے “مستدرک حاکم” میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس پر سکوت فرمایا ہے، نیز امام ذہبی رحمہ اللہ (م 748 ھ) نے بھی “تلخیص المستدرک” میں اس حدیث پر سکوت فرمایا ہے۔
3) مزید یہ کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م 852 ھ) نے “لسان المیزان” 4/ 353 میں “طفیل بن عمرو التمیمی” کے تذکرے میں فرمایا ہے: طفیل کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے “الثقات” میں نقل فرمایا ہے۔
گویا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے نزدیک طفیل بن عمرو ضعیف راوى نہیں ہیں۔
خلاصہ:
اس حدیث کے راوی “طفیل بن عمرو” پر محدثین کا کلام ہے، بعض محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے اور بعض محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے،۔ مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ تاہم چونکہ اس حدیث کا ضعف شدید نہیں ہے، اس لیے اس حدیث کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button

You cannot copy content of this page

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker