ashab e rasool

Hazrat hamza R.A.

حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ:

Hazrat hamza R.A. Hazrat hamza R.A.

Hazrat-hamza R.A

حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ

:نام و نسب

نام: حمزہ۔ کنیت: ابو یعلیٰ اور ابو عمارہ۔ لقب: اسد اللہ۔

آنحضرت ﷺ کے چچا تھے۔ ماں کی طرف سے یہ تعلق تھا کہ ان کی والدہ ہالہ بنت وہب سرورِ کائنات ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی چچازاد بہن تھیں۔ پورا سلسلہ نسب یہ ہے: حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔

اس نسبی تعلق کے علاوہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ یعنی ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ عمر میں حضور انور ﷺ سے دو برس بڑے تھے۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ سیر و شکار سے بھی غیر معمولی دلچسپی تھی۔؛ چنانچہ زندگی کا بڑا حصہ اسی مشغلہ میں بسر ہوا۔

:قبولیتِ اسلام

دعوتِ توحید کی صدا اگرچہ ایک عرصہ سے مکہ کی گھاٹیوں میں گونج رہی تھی۔ تاہم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے سپاہی منش کو ان باتوں سے کیا تعلق؟ انہیں صحرا نوردی اور سیر وشکار سے کب فرصت تھی۔ جو شرک و توحید کی حقانیت پر غور کرتے۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے عجیب طرح سے ان کی رہنمائی کی۔ایک روز حسبِ معمول شکار سے واپس آ رہے تھے۔ کوہِ صفا کے پاس پہنچے تو ایک لونڈی نے کہا: “ابو عمارہ! کاش تھوڑی دیر پہلے تم اپنے بھتیجے محمد ﷺ کا حال دیکھتے۔ وہ خانہ کعبہ میں اپنے مذہب کا وعظ کہہ رہے تھے۔ کہ ابو جہل نے نہایت سخت گالیاں دیں۔ اور بہت بری طرح ستایا۔ لیکن محمد ﷺ نے کچھ جواب نہ دیا اور بےبسی کے ساتھ لوٹ گئے۔

یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت میں جوش آگیا۔ تیزی کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے۔ ان کا قاعدہ تھا کہ شکار سے واپس آتے ہوئے کوئی راہ میں مل جاتا تو کھڑے ہوکر ضرور اس سے دو دو باتیں کرلیتے تھے۔ لیکن اس وقت جوشِ انتقام نے مغضوب الغضب کر دیا تھا۔ کسی طرف متوجہ نہ ہوئے اور سیدھے خانہ کعبہ پہنچ کر ابو جہل کے سر پر زور سے اپنی کمان دے ماری۔ جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر بنی مخزوم کے چند آدمی ابو جہل کی مدد کے لیے دوڑے اور بولے: حمزہ! شاید تم بھی بددین ہوگئے؟ فرمایا: “جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہوگئی۔ تو کون سی چیز اس سے باز رکھ سکتی ہے؟ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے رسول ﷺ ہیں۔ اور جو کچھ وہ کہتے ہیں سب حق ہے۔ خدا کی قسم! اب میں اس سے پھر نہیں سکتا۔ اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دیکھ لو۔ ابو جہل نے کہا ابو عمارہ کو چھوڑ دو۔ خدا کی قسم! میں نے ابھی اس کے بھتیجے کو سخت گالیاں دی ہیں۔ (طبقاتِ ابن سعد، قسم اول، جزء ثالث)

یہ اسلام کا وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ﷺ ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین تھے۔ اور مومنین کا حلقہ صرف چند کمزور ناتواں ہستیوں پر محدود تھا۔ لیکن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اضافہ سے دفعۃً حالت بدل گئی۔ اور کفار کی مطلق العنان دست درازیوں اور ایذا رسانیوں کا سدِ باب ہو گیا۔ کیونکہ ان کی شجاعت وجانبازی کا تمام مکہ لوہا مانتا تھا۔ (طبقاتِ ابن سعد، حصہ: مغازی)

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آستانہ نبوی ﷺ پر دستک دی۔ چونکہ شمشیر بکف تھے۔ اس لیے صحابہ کرام کو تردد ہوا۔ لیکن اس شیرِ خدا نے کہا: کچھ مضائقہ نہیں۔ آنے دو! اگر مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا۔ غرض وہ اندر داخل ہوئے اور کلمہ توحید ان کی زبان پر تھا۔ اور مسلمان جوشِ مسرت سے اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ (طبقات ابن سعد، حصہ: مغازی: 3)

:مواخات

مکہ کی مواخات میں حضرت خیرالانام ﷺ کے محبوب غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلامی بھائی قرار پائے۔ ان کو حضرت زید رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت ہوگئی تھی۔ کہ غزوات میں تشریف لے جاتے تو ان ہی کو ہر قسم کی وصیت کرجاتے تھے۔ (طبقاتِ ابن سعد، ص: 08)

-:ہجرت

بعثت کے تیرہویں سال تمام صحابہ کرام ؓ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔ جہاں ان کو زورِ بازو اور خدا داد شجاعت کے جوہر دکھانے کا نہایت اچھا موقع ہاتھ آیا۔ چنانچہ پہلا اسلامی پھریرا ان ہی کو عنایت ہوا۔ اور تین آدمیوں کے ساتھ ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کیے گئے۔ کہ قریشی قافلوں کے سدِّ راہ ہوں۔ غرض وہاں پہنچ کر ابو جہل کے قافلہ سے جس میں تین سو سوار تھے مڈ بھیڑ ہوئی۔ اور طرفین نے جنگ کے لیے صف بندی کی۔ لیکن مجدی بن عمرو الجہنی نے بیچ بچاؤ کرکے لڑائی روک دی۔ اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بغیر کشت وخون واپس آئے۔ (ابو داؤد: 1/ 263)

-:غَزَوات میں شرکت

اسی سال ماہِ صفر میں خود سرورِ کائنات ﷺ نے سب سے پہلی دفعہ۔ تقریباً ساٹھ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ قریش مکہ کی نقل وحرکت میں سدِراہ ہونے کے لیے ابوا پر فوج کشی فرمائی۔ حضرت حمزہ ؓ علمبردار تھے اور تمام فوج کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن قریش کا قافلہ آگے بڑھ چکا تھا۔ اس لیے جنگ وجدل کا موقع پیش نہ آیا۔ تاہم اس مہم کا سب سے زیادہ نتیجہ خیز اثر یہ تھا۔ کہ بنو خمرہ سے ایک دوستانہ معاہدہ طے پاگیا۔ (اسد الغابۃ: تذکرۃ حمزہؓ)

اسی طرح 2ھ میں غزوۂ عشیرہ پیش آیا۔ اس میں بھی علمبرداری کا طرۂ افتخار حضرت امیر حمزہ ؓ کے دستار فضل وکمال پر آویزاں تھا۔ لیکن اس دفعہ بھی کوئی جنگ واقع نہ ہوئی۔ اور صرف بنو مدلج سے امدادِ باہمی کا ایک عہد نامہ طے پایا۔ (طبقاتِ ابن سعد، حصہ مغازی: 19)

-:غزوۂ بدر میں بہادری کے جوہر دکھانا

اسی سال بدر کا مشہور معرکہ پیش آیا۔ صف آرائی کے بعد عتبہ، شیبہ، اور ولید نے کفار کی طرف سے نکل کر مبارز طلبی کی تو غازیانِ دین میں سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے آگے بڑھے۔ لیکن عتبہ نے پکار کر کہا: “محمد! ﷺ ہم نا جنسوں سے نہیں لڑ سکتے۔ ہمارے مقابل والوں کو بھیجو” ارشاد ہوا: حمزہ ؓ، علی ؓ، عبیدہ ؓ اٹھو۔ اور آگے بڑھو! حکم کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبرد آزما بہادر نیزے ہلاتے ہوئے اپنے حریف کے مقابل جا کھڑے ہوئے۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ

نے پہلے ہی حملہ میں عتبہ کو واصل جہنم کیا۔ حضرت علیؓ بھی اپنے حریف پر غالب آئے۔ لیکن حضرت ابو عبیدہ ؓ اور ولید میں دیر تک کشمکش جاری رہی۔ وہ زخمی ہو گئے۔ تو ان دونوں نے ایک ساتھ حملہ کرکے اس کو تہہ تیغ کردیا۔ (صحیح بخاری: کتاب المغازی، باب قتل حمزہ ؓ )

یہ دیکھ کر طعیمہ بن عدی جوشِ انتقام میں آگے بڑھا۔ لیکن شیرِ خدا نے ایک ہی وار میں اس کو بھی ڈھیر کردیا۔ مشرکین نے طیش میں آکر عام حملہ کردیا۔ دوسری طرف سے مجاہدینِ اسلام بھی اپنے دلاوروں کو نرغہ میں دیکھ کر ٹوٹ پڑے۔ نہایت گھمسان کا رن پڑا۔ اسد اللہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے دستار پر شتر مرغ کی کلغی تھی۔ اس لیے جس طرف گھس جاتے تھے صاف نظر آتے تھے۔ دونوں ہاتھ میں تلوار تھی اور مردانہ وار دو دستی حملوں سے پرے کا پرا صاف کر رہے تھے۔ غرض جب تھوڑی دیر میں لشکرِ قریش بہت سے قیدی اور مالِ غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ تو بعض قیدیوں نے پوچھا: یہ کلغی لگائے کون ہے؟ لوگوں نے کہا: حمزہ ؓ، بولے: آج ہم کو سب سے زیادہ نقصان اسی نے پہنچایا۔ (اسد الغابۃ: تذکرۃ حمزہ ؓ )

-:غزوۂ بنی قینقاع میں علمبرداری

بنو قینقاع نام کی اطرافِ مدینہ میں یہودیوں کی ایک جماعت تھی۔ چونکہ یہ عبد اللہ بن ابی سلول کے حلیف تھے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ سے دوستانہ معاہدہ طے پاگیا تھا۔ لیکن غزوۂ بدر کی کامیابی نے ان کے دلوں میں رشک وحسد کی آگ بھڑکا دی۔ اور علانیہ سرکشی پر آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس عہد شکنی کے باعث اسی سال ماہِ شوال میں ان پر فوج کشی فرمائی اور بزور اطرافِ مدینہ سے جلاوطن کردیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس معرکہ میں علمبرداری کے منصب پر مامور تھے۔ (صحیح بخاری: باب قتل حمزہؓ )

-:غزوۂ اُحد میں دادِ شجاعت

بدر کی شکستِ فاش نے مشرکینِ قریش کے تو سنِ غیرت کے لیے تازیانہ کا کام کیا۔ اور جوشِ انتقام سے بر انگیختہ ہوکر 3ھ میں قریش کا سیلابِ عظیم پھر مدینہ کی طرف بڑھا۔ حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے اپنے جان نثاروں کے ساتھ نکل کر کوہِ اُحد کے دامن میں اس کو روکا۔ 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی۔ کفار کی طرف سے سباع نے بڑھ کر مبارز طلبی کی تو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی شمشیر لہراتے ہوئے میدان میں آئے۔ اور للکار کر کہا: اے سباع! اے ام انمار مضغہ نجس کے بچے! کیا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لڑنے آیا ہے؟ یہ کہہ کر اس زور سے حملہ کیا۔ کہ ایک ہی وار میں اس کا کام تمام ہو گیا۔ (طبقاتِ ابن سعد: قسم اول، جزء ثالث: 07)

اس کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوئی۔ اس شیرِ خدا نے دوبارہ کفر کے ٹڈی دل میں گھس کر کشتوں کے پشتے لگادیئے۔ اور جس طرف جھک پڑے صفیں کی صفیں الٹ دیں۔ غرض اس جوش سے لڑے کہ تنہا تیس کافروں کو واصلِ جہنم کردیا۔ (طبقاتِ ابن سعد: قسم اول، جزء ثالث: 07)

-:شہادت

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے چونکہ جنگِ بدر میں چن چن کر اکثر صنادیدِ قریش کو تہہِ تیغ کیا تھا۔ اس لیے تمام مشرکینِ قریش سب سے زیادہ ان کے خون کے پیاسے تھے۔ چنانچہ جبیر بن مطعم نے ایک غلام کو جس کا نام وحشی تھا۔ (جو کہ بعد میں مسلمان ہوچکے تھے) اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے انتقام پر خاص طور سے تیار کیا تھا۔ اور اس صلہ میں آزادی کا لالچ دلایا تھا۔ غرض وہ جنگِ اُحد کے موقع پر ایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھا ہوا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہا تھا۔ اتفاقاً وہ ایک دفعہ قریب سے گزرے تو اس نے اچانک اس زور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا کہ آر پار ہوگیا۔ پھر بھی آپ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کی طرف شیر کی طرح جھپٹے. مگر زخموں سے نڈھال ہوکر گر پڑے۔

اس شیرِ خدا کی شہادت پر کفار کی عورتوں نے خوشی و مسرت کے ترانے گائے۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا بنت عتبہ نے لاش کا مثلہ کیا۔ حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے سنا تو پوچھا: کیا اس نے کچھ کھایا بھی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں: فرمایا: یارب! حمزہ ؓ کے کسی جزو کو جہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔ (صحیح بخاری: باب قتل حمزہؓ)

-:تجہیز وتکفین

اختتامِ جنگ کے بعد شہدائے اسلام کی تجہیز و تکفین شروع ہوئی۔ حضرت سرورِ کائنات ﷺ اپنے عمِ محترم کی لاش پر تشریف لائے۔ دیکھ کر بےاختیار دل بھر آیا۔ اور مخاطب ہوکر فرمایا: تم پر خدا کی رحمت ہے۔ کیونکہ تم رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ اگر مجھے صفیہ رضی اللہ عنہا کے رنج و غم کا خیال نہ ہوتا۔ تو میں تمہیں اسی طرح چھوڑ دیتا۔ کہ درند اور پرند کھا جائیں۔ اور تم قیامت میں ان ہی کے شکم سے اُٹھائے جاؤ۔ خداکی قسم! مجھ پر تمہارا انتقام واجب ہے۔ میں تمہارے عوض ستر کافروں کا مثلہ کروں گا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد وحی الٰہی نے اس انتقام کی ممانعت کردی۔ اس لیے کفارۂ یمین اداکرکے صبر و شکیبائی اختیار فرمائی۔ (صحیح بخاری: کتاب فرض الخُمس)

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن تھیں۔ بھائی کی شہادت کا حال سنا تو روتے ہوئے جنازہ کے پاس آئیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے دیکھنے نہ دیا۔ اور تسلی وتشفی دے کر واپس فرمایا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے صاحبزادہ حضرت زبیر ؓ کو دو چادریں دے گئی تھیں۔ کہ ان سے کفن کا کام لیا جائے۔ لیکن پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بےگور وکفن تھی۔ اس لیے انہوں نے دونوں شہیدانِ ملت میں ایک ایک چادر تقسیم کردی۔ اس ایک چادر سے سر چھپایا جاتا۔ تو پاؤں کھل جاتے۔ اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر برہنہ ہو جاتا تھا۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا

کہ چادر سے چہرہ چھپاؤ اور پاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو۔ غرض سید الشہداء کا جنازہ تیار ہوا۔ سرورِ کائنات ﷺ نے خود نماز پڑھائی۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے شہدائے اُحد کے جنازے ان کے پہلو میں رکھے گئے۔ اور آپ ﷺ نے علیحدہ علیحدہ ہر ایک پر نماز پڑھائی۔ اس طرح تقریباً نمازوں کے بعد غازیانِ دین نے بصد اندوہ والم اس شیر خدا کو اسی میدان میں سپرد خاک کیا۔ (طبقاتِ ابن سعد قسم اول، جزء ثالث: 07)

-:آنحضرت ﷺ کا حزن وملال

سرورِ کائنات ﷺ کو اس سانحہ پر شدید قلق تھا. مدینہ منورہ تشریف لائے. اور بنی عبدِ اشہل کی عورتوں کو اپنے اپنے اعزہ و اقارب پر روتے سنا. تو فرمایا: افسوس! حمزہ ؓ کے لیے رونے والیاں بھی نہیں. انصار نے یہ سن کر اپنی عورتوں کو آستانہ نبوت پر بھیج دیا. جنہوں نے نہایت رقت آمیز طریقہ سے سیدالشہداء ؓ پر گریہ وزاری شروع کی. اسی حالت میں آنحضرت ﷺ کی آنکھ لگ گئی. کچھ دیر کے بعد بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ اب تک رو رہی ہیں. فرمایا: کیا خوب! یہ سب اب تک یہیں بیٹھی رو رہی ہیں. انہیں حکم دو کہ واپس جائیں اور آج کے بعد پھر کسی مرنے والے پر نہ روئیں۔

-:اخلاق

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے اخلاق میں سپاہیانہ خصائل نہایت نمایاں تھے. شجاعت وجانبازی اور بہادری ان کے مخصوص اوصاف تھے۔ حضرت امیر حمزہ ؓ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تمام نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ چنانچہ شہادت کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کی لاش سے مخاطب ہوکر اس طرح ان محاسن کی داد دی تھی۔ “تم پر خدا کی رحمت ہو۔ کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے تم قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔”

-:ازواج و اولاد

حضرت حمزہ ؓ نے متعدد شادیاں کیں۔ بیویوں کے نام یہ ہیں: بنت الملہ، خولہ بنت قیس، سلمیٰ بنت عمیس، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے اولاد ہوئی۔ لڑکوں کے نام یہ ہیں: ابویعلیٰ، عامر، عمارہ، آخر الذکر دونوں لاولد فوت ہوئے۔ ابویعلیٰ سے چند اولادیں ہوئیں۔ لیکن وہ سب بچپن ہی میں قضا کرگئیں۔ اس طرح حضرت حمزہ ؓ کا سلسلہ نسل شروع ہی میں منقطع ہو گیا۔

سلمیٰ بنت عمیس کے بطن سے امامہ نامی ایک لڑکی بھی تھی۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مراجعت فرمائی تو بھائی بھائی کہہ کر اس نے پیچھا کیا۔ حضرت حمزہ ؓ کے رشتہ داروں میں سے حضرت علی ؓ، حضرت جعفر ؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے ان کو اپنی اپنی تربیت میں لینے کا دعویٰ پیش کیا۔ لیکن آپ ﷺ نے حضرت جعفر ؓ کے حق میں فیصلہ دیا۔ کیونکہ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس امامہ کی حقیقی خالہ تھیں۔ حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ کو امامہ سے شادی کرلینے کی ترغیب دی تھی۔ لیکن آپ ﷺ نے انکار کردیا اور فرمایا: حمزہ ؓ میرے رضاعی بھائی تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button

You cannot copy content of this page

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker