HakayatUrdu Corner

Bacha dani per farishta

بچہ دانی پر فرشتہ مقرر

Bacha dani per farishta Bacha dani per farishta

Bacha dani per farishta

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالی نے عورت کی بچہ دانی پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے رب اب یہ نطفہ ہے۔ اے میرے رب اب یہ جما ہوا خون ہے۔ اے میرے رب اب یہ گوشت کا لوتھڑا ہے۔

اللہ تعالی کے سب کچھ جاننے کے باوجود فرشتہ اللہ تعالی کو بچے کی مختلف شکلیں بتاتا رہتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالی اس کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ اس کے متعلق کیا لکھوں ؟ لڑکا یا لڑکی بدبخت یا نیک بخت۔ روزی کیا ہوگی اس کی عمر کتنی ہوگی۔ چنانچہ ساری تفصیلات اسی وقت لکھی جاتی ہے۔ جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے

حدیث: اللہ کی طرف سے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر ہے، جو کہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ ہے۔ اے رب! اب یہ علقہ (جما ہوا خون) بن گیا ہے۔ اے رب! اب مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری كر دے، تو وہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہو گا یا لڑکی؟ بدبخت ہو گا یا نیک بخت؟ اس کا رزق کتنا ہے؟  عمر کتنی ہو گی؟  یہ سب باتیں اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔

عن أنس بن مالك رضي الله عنه مرفوعاً: «وكَّلَ اللهُ بالرَّحِم مَلَكًا، فيقول: أيْ ربِّ نُطْفة، أيْ ربِّ عَلَقة، أيْ ربِّ مُضْغة، فإذا أراد اللهُ أن يقضيَ خَلْقَها، قال: أيْ ربِّ، أذكرٌ أم أنثى، أشقيٌّ أم سعيدٌ، فما الرزق؟ فما الأَجَل؟ فيكتب كذلك في بطن أُمِّه».

[صحيح] – [متفق عليه]

نبی ﷺ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے۔ یعنی اللہ کی طرف سے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ رحم مادر کے امور کو سنبھالتا ہے۔ رحم سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں ماں کے پیٹ میں بچہ پرورش پاتا ہے۔ وہ فرشتہ کہتا ہے: ”أي ربّ نطفة“ یعنی یہ نطفہ ہے۔ نطفہ سے مراد مرد کا مادہ منویہ ہے۔ یہی مفہوم اس کے بعد والے جملے کا بھی ہے کہ: ”أي ربّ علقة“ یعنی اے رب! یہ علقہ بن چکا ہے۔ علقہ سے مراد گاڑھا خون ہے۔ پھر وہ کہتا ہے: ”أي ربّ مضغة“ یعنی اے رب یہ مضغہ بن چکا ہے۔ مضغہ گوشت کے ٹکڑے کو کہا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ان ادوار میں سے ہر ایک کی مدت چالیس دن ہے۔

پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ اس کی پیدائش کو مکمل کرنا چاہتا ہے“۔ یعنی اس مضغہ کی پیدائش کو، کیوںکہ ان ادوار میں سے آخری دور یہی ہوتا ہے۔ ‘القضاء’ سے مراد ہے اس کی پیدائش کو پورا کرنا، بایں طور کہ اس میں روح پھونک دی جائے۔ جیسا کہ اس کی وضاحت ایک اور روایت سے ہوتی ہے۔ ایسا ایک سو بیس دن کے مکمل ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے: ”أي رب أذكر أم أنثى“ یعنی اے رب! میں اسے مرد لکھوں یا عورت؟ ”أشقي أم سعيد“ یعنی آیا میں اسے اہل دوزخ میں سے ایک بدبخت لکھوں یا پھر جنتیوں میں سے ایک خوش بخت؟ ”فما الرزق“ یعنی اس کا رزق کم ہے یا زیادہ اور کتنا ہے؟ ”فما الأجل“ یعنی اس کی عمر کتنی ہے، لمبی ہے یا مختصر؟ ”فيكتب كذلك في بطن أمه“ یعنی بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے کہ یہ سب ذکر کی گئی اشیا اللہ تعالی کے حکم کے مطابق لکھ دی جاتی ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button

You cannot copy content of this page

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker