ek budhiya ki kahani
ek budhiya ki kahani ek budhiya ki kahani
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بڑھیا کا بیٹا فوج میں ہوتا تھا۔ اس نے اپنی ماں کو خط بھیجا۔ بڑھیا پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کا خط لے کر دروازے کے سامنے بیٹھ گئی۔ کہ کوئی راستے سے گزرے اور اسے خط پڑھ کر سنادے۔ وہاں سے ایک آدمی کا گزر ہوا بڑھیا نے اسے خط پڑھنے کو بولا تو خط دیکھ کر وہ رونے لگا۔
بڑھیا یہ سمجھ کر کہ خط میں کوئی بری خبر ہے۔ وہ بھی رونے لگی۔ ایک پھیری والے کا وہاں سے گزر ہوا تو ان کو روتا دیکھ کر وہ بھی رونے بیٹھ گیا۔ ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا جو ان تینوں (بڑھیا، آدمی اور برتن بیچنے والے) کو روتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے رونے کی وجہ دریافت کی تو بڑھیا نے خط کا بتایا جبکہ آدمی نے بتایا کہ وہ اس لیے رو رہا تھا کہ اس نے بچپن میں پڑھائی پر توجہ نہ دی۔ اس لیے کوشش کے باوجود وہ خط نہ پڑھ سکا اور پڑھائی کے غم میں رورہا تھا۔
تھی بلکہ یہ لکھا تھا کہ بڑھیا کا بیٹا امجد اگلے مہینے چھٹی لے کر گھر آرہا ہے۔